Saturday 31 October 2015

پنجاب اسمبلی فوری طور پر پنجابی زبان کو تعلیمی اور دفتری زبان بنانے کے لیے قانون سازی کرے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ ' آئیں کے آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر کے فوراَ نافذ کرنے کا حکم دے چکی ھے۔ سپریم کورٹ کے حکم کو صرف اردو زبان کے بطور سرکاری زبان نفاذ تک محدود رکھ کر مشتہر کیا جا رھا ھے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ھے کہ؛

آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراَ نافذ کیا جائے۔

سپریم کورٹ کا حکم اگر صرف آرٹیکل 251 (1) کے نفاذ کے لیے ھوتا تو اس سے مراد صرف اردو زبان کا بطور سرکاری زبان نفاذ ھوتا لیکن سپریم کورٹ کا حکم چونکہ آرٹیکل 251 کے نفاذ کے لیے ھے اور آرٹیکل 251 کے نفاذ کا مطلب آرٹیکل 251 (1) ' آرٹیکل 251 (2) آرٹیکل 251 (3) کا نفاذ ھے۔ 

سپریم کورٹ کا حکم چونکہ واضح طور پر آرٹیکل 251 کے نفاذ کے لیے ھے ' نہ کہ صرف آرٹیکل 251 (1) کے نفاذ کے لیے اس لیے سپریم کورٹ کا حکم صرف اردو زبان کے نفاذ تک محدود نہیں رکھا جاسکتا بلکہ آرٹیکل 251 کے نفاذ کا مطلب  " اردو زبان کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور قومی زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ ھے"۔

http://www.supremecourt.gov.pk/web/user_files/File/Const.P.56_2003_U_dt_8-9-2015.pdf

آرٹیکل 251 کا متن ھے؛

پاکستان کی قومی زبان اردو ھے اور آغاز سے 15 سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے کہ اسکو سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

ذیلی دفعہ (1) کے اندر رھتے ھوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جاسکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کیے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔

قومی زبان کے مرتبہ پر اثر انداز ھوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کرسکتی ھے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ ' تدریس اور قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جاسکے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی تمہید میں کہا ھے کہ؛

" اس سے پہلے بھی ھم آرٹیکل 251 کے مندرجات کی اھمیت کی طرف توجہ دلوا چکے ھیں اور سرکاری امور میں قومی زبان اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی اھمیت کو اجاگر کرچکے ھیں"۔ 

" عدالت نے مشاہدہ کیا ھے کہ حکومتِ پنجاب ' پنجابی زبان کو اس کا مقام دلوانے میں ناکام رھی ھے اور اس زبان کو حصولِ علم کا ذریعہ بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے"۔

" دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضہ ھے کہ ریاست ھر مرد و زن شہری کی زبان کو چاھے وہ قومی ھو یا صوبائی ' ایک قابلِ احترام زبان کا درجہ ضرور دے"۔

" جب ریاست اس بات پر مصر ھوجائے کہ وہ زبانیں جو پاکستان کے شہریوں کی اکثریت بولتی ھے ' اس قابل نہیں ھیں کہ ان میں ریاستی کام انجام پا سکے تو پھر ریاست ان شہریوں کو حقیقی معنوں میں ان کے انسانی وقار سے محروم کر رھی ھے"۔

" اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ انفرادی اور اجتماعی وقار اور تعلیم باھم مربوط ھیں۔ تعلیم ' جو ایک بنیادی حق ھے ' براہ راست زبان سے تعلق رکھتی ھے"۔

یونیسکو جیسا ادارہ بھی ' جو اقوامِ متحدہ کا تعلیمی ' سائنسی اور ثقافتی ادارہ ھے ' اس بات کی تائید کرتا ھے کہ بچے کو اس کی اپنی زبان میں ھی تعلیم دی جانی چاھیئے کیونکہ اپنی زبان ھی وہ زبان ھے جو اپنے گھر اور ماحول سے سیکھتا ھے اور اسی کے زیرِسایہ پروان چڑھتا ھے۔ لیکن حکومت اس اھم معاملے سے بے نیاز دکھائی دیتی ھے"۔

" حکومتوں کی بے عملی اور ناکامی کو سامنے رکھتے ھوئے ' ھمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ھم حکم جاری کریں ؛ آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراَ نافذ کیا جائے"۔ " بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باھمی رابط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں"۔" اس فیصلے کے اجراع کے بعد ' اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اھلکار آرٹیکل 251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا ' اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ھوگا"۔

" اس فیصلے کی نقل تمام وفاقی اور صوبائی معتمدین کو بھیجی جائے تاکہ وہ آرٹیکل 5 کی روشنی میں آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کے لیے فوری طور پر اقدام اٹھائیں۔ وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس ھدایت پر عمل درآمد کی رپورٹ تین ماہ کے اندر تیار ھوکر عدالت میں پیش کی جائے"۔

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب پاکستان کے وفاقی اداروں میں اردو زبان استعمال ھوگی  جبکہ پنجاب کے صوبائی اداروں میں پنجابی ' سندھ کے صوبائی اداروں میں سندھی ' خیبر پختونخواہ کے صوبائی اداروں میں پشتو اور بلوچستان کے صوبائی اداروں میں بلوچی استعمال ھوگی۔ اس لیے پنجاب حکومت اور معزز اراکینِ پنجاب اسمبلی سے پنجاب کے عوام کا مطالبہ ھے کہ پنجاب اسمبلی فوری طور پر پنجابی زبان کو تعلیمی اور دفتری زبان بنانے کے لیے قانون سازی کرے۔

No comments:

Post a Comment